ثنا ادریس___
دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد سے تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال، متاثرین اور انسانی اموات کی تعداد میں روز بروز ہونے والے اضافے اور بیماری کے پھیلائو کو روکنے کیلئے نافذ کردہ لاک ڈائون کے نتیجے میں تقریباً تمام ملکوں کی معاشی حالت خراب ہو چکی ہے
ئی ایم ایف نے اس صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے 1929ء کے عظیم معاشی بحران (دی گریٹ ڈپریشن) سے تشبیہ دی ہے۔

دی گریٹ ڈپریشن یا عظیم کساد کے متعلق جاننے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ 1920ء سے امریکی معیشت کا پہیہ تیز رفتار ہو چکا تھا، صنعتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ اور پیداوار زیادہ دے رہی تھیں جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان نظر آنے لگا
1920ء سے 1928ء تک کے عرصہ میں امریکی معیشت نے جس تیزی سے ترقی کی وہ بہت شاندار اور بے مثال رہی اور اسی لیے اُس عرصہ کو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کمپنیوں کی اچھی کارکردگی اور اچھی معاشی شرح نمو کی وجہ سے شیئرز کی قیمتیں تیزی سے بڑھ گئیں جس سے لوگوں کو بھاری منافع یا ڈیوڈنڈ ملنے لگا۔ اُس وقت امریکا کی کئی کمپنیاں بڑے پیمانے پر چیزیں تیار کرنے کا طریقہ (ماس پروڈکشن) اختیار کر چکی تھیں، نئے برقی آلات تیار ہونے لگے جن میں ریفریجریٹر، واشنگ مشین اور ریڈیو جیسی چیزوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا
ہر دو سال میں پچھلے سال کے مقابلے میں سامان کی فروخت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے تھے۔ چونکہ کمپنیوں کی پیدوار اور منافع زیادہ تھا اسلئے لوگوں نے تیزی سے گھر بیٹھے منافع کمانے کیلئے اپنا سرمایہ اسٹاک مارکیٹس میں لگانا شروع کیا

کاروباری تجزیے کی حکمت عملی نہ ہونے اور کمائی کا آسان ذریعہ تلاش کرنے والے لوگوں نے ناسمجھی میں پیسہ اسٹاک میں لگانا شروع کر دیا تھا۔
ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگانا شروع کر دیا جنہیں اسٹاک مارکیٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار اور معیشت کی تھوڑی سی بھی معلومات نہیں تھیں
بہت زیادہ پیسہ شیئرز میں لگنے کی وجہ سے ان کی مالیت اصل قیمت سے بہت زیادہ بڑھنے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ شیئرز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں
اگست 1929ء تک شیئرز بازار میں قیمتیں بہت اونچی سطح پر جا چکی تھیں اور یہ قیمتیں ان کمپنیوں کے شیئرز کی اصل قیمت سے بھی بہت زیادہ تھیں۔
1929ء کے آغاز سے ہی کمپنیوں کی پیداواری رفتار آہستہ ہونے لگی جس سے کمپنیوں کے ملازمین ملازمت سے فارغ کیے جانے لگے جبکہ ایسے ملازمین جن کی ملازمت بچ گئی ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں۔

سونے پر سہاگہ یہ خشک سالی کی وجہ سے زرعی شعبہ بھی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ آنکھیں بند کرکے شیئرز پر سرمایہ لگانے سے باز نہ آئے
ء 1929ء کے درمیان امریکی شیئرز کی قیمت تقریباً دوگنی ہو چکی تھی۔
کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں ان کی آمدنی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھیں یہی وجہ تھی کہ 24؍ اکتوبر سے اسٹاک مارکیٹس میں گراوٹ آنا شروع ہوگئی اور 29؍ اکتوبر 1929ء یعنی منگل کے دن امریکی اسٹاک مارکیٹ مکمل طور پر کریش ہوگئی
یو ایس اسٹیل نامی کمپنی کے ایک شیئر کی قیمت 250؍ ڈالر تھی جو 1932ء تک 25؍ ڈالرز تک گر گئی۔ اسی طرح کئی کمپنیوں کے شیئرز کی مالیت 90؍ فیصد تک گر گئی

اس صورتحال میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شیئرز میں سرمایہ لگانا بند کرد یا جس کے نتیجے میں کاروبار کیلئے سرمایہ مشکل ہوگیا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کے بعد لوگوں نے اپنے خرچے کم کر دیے جس کا اثر کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت پر پڑا، کئی کمپنیوں نے اپنے پلانٹس بند کردیے جبکہ کچھ ایسی بھی تھیں جو مکمل طور پر بند ہوگئیں،
صرف دو سال میں ہی امریکا کی صنعتی پیداوار آدھے سے بھی کم ہوگئی نتیجتاً بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا بیروزگاری کے نتیجے میں لوگوں نے اخراجات پورے کرنے کیلئے بینکوں میں رکھی اپنی جمع پونجی نکلوانا شروع کر دی
بینکوں کے پاس لیکوئڈٹی نہیں تھی کہ وہ سارے کھاتہ داروں کو ایک ساتھ ان کا پیسہ لوٹا سکیں جبکہ ایسے لوگ جو بینکوں سے قرضہ لے چکے تھے وہ بیروزگاری کی وجہ سے رقم واپس نہیں کر پا رہے تھے۔ جن کمپنیوں نے بینکوں سے قرضے لیے تھے وہ بھی ڈیفالٹر ہو چکی تھیں
ایسی صورتحال میں بینک ناکام ہوگئے، کئی لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب گئی۔
بینکوں کی ناکامی کی خبریں پھیلنے کے بعد باقی لوگوں نے بھی بینکوں سے پیسے نکلوانے کی کوششیں کیں نتیجتاً 1933ء تک امریکا میں 8؍ ہزار بینک ناکام ہوگئے۔ صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی حکومت اور مرکزی بینک نے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے جس کے باعث صورتحال خراب ہوگئی۔
امریکا میں بیروزگاری بڑھنے کے ساتھ مہنگائی اور غربت میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔

ایسی صورتحال میں لوگوں نے دیگر ملکوں سے آنے والی سستی اشیاء خریدنا شروع کیں جسے روکنے کیلئے اُس وقت کے امریکی صدر ہربرٹ ہوور نے ’’سمُوٹ ہائولی ایکٹ‘‘ نافذ کیا جس کے تحت دیگر ملکوں سے آنے والی 20؍ ہزار اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کیے گئے تاکہ ان کی قیمتیں بھی امریکا میں تیار ہونے والی اشیاء کے مساوی ہو جائیں اور لوگ امریکی چیزیں ہی خریدنے کو ترجیح دیں۔
اس کے نتیجے میں امریکی درآمدات 7؍ ارب ڈالرز سے کم ہو کر 2.5؍ ارب ڈالرز تک آگیا۔ امریکی اقدام کے نتیجے میں دیگر ملکوں نے بھی امریکی سامان پر بھاری ٹیرف عائد کر دیا یا خریداری بند کردی جس سے عالمی تجارت میں کمی ہونے لگی۔
ایف ڈی آئی سی نے عوام کو ضمانت دینا شروع کی کہ اگر بینک ان کا پیسہ واپس لوٹانے میں ناکام رہے تو یہ رقم حکومت ادا کرے گی؛ جس سے لوگوں کا اعتماد بحال ہوا اور وہ بینکوں میں اپنا پیسہ رکھنے لگے۔
سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اسٹاک مارکیٹ میں بے ضابطہ انداز سے پیسہ لگانے والوں کیلئے ضابطے تشکیل دیے جس سے معیشت کو سہارا ملا۔ 1933ء سے 1936ء کے درمیان معیشت سنبھلی ہی تھی کہ 1937ء تک دوبارہ اس میں تنزلی آئی اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم میں عسکری معیشت پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے امریکی معیشت دوبارہ سنبھلنے لگی
گریٹ ڈپریشن کو کساد عظیم بھی کہا جاتا ہے جس نے دنیا کے تقریباً ہر ملک، غریب و امیر دونوں، پر تباہ کن اثرات مرتب کیےذاتی آمدنی، محصول کی آمدنی، نفع و قیمتوں میں کمی اور بین الاقوامی تجارت نصف سے دو تہائی رہ گئی
امریکا میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد ہو گئی اور چند ممالک میں تو یہ شرح 33 فیصد تک پہنچ گئی۔ دنیا کے کئی ممالک بہت زیادہ متاثر ہوئے، خصوصاً وہ جو بھاری صنعت پر انحصار کرتے تھے۔ کئی ممالک میں تعمیرات کا کام تقریباً ختم ہو گیا۔