اسلام آباد: پاکستان لیبرفورس کے جنرل سیکریٹری جہانذ یب خان نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزدوروں کی پنشن کا سب سے بڑا ادارہ ای او بی جو آج کل جونیئر افسران کی وجہ سے چیئرمین سیکریٹریٹ پر غالب ہے جسکی وجہ سے ای او بی آئی ترقی کے بجائے تباہی کی آخری حدوں کو چھورہاہے کرونا کی وجہ سے کئی ماہ تک تمام دفاتر بندکردئےے گئے مگر پنشنرکی کسی کو فکر نہیں،جنکے فنڈز سے یہ ادارہ چل رہاہے آج ہزاروں پنشنرز کی فائلیں مکمل ہونے سے قاصر ہیں اور افسران کو کرونا کا بہانہ کھائے جارہاہے اب نام نہاد آن لائن ٹریننگ کو رس کا ڈرامہ رچایاگیاہے جسمیں سینئر افسران کو کھڈے لائن لگاکر جونیئر افسران کے گرد طاہر صدیق عرف طارق چوہدری جو2014میں بھرتی ہوا اپنے جوہر دکھائے ہوتے آج مختلف شعبہ جات کا انچارج بنادیاگیا ہے جبکہ پنشنرز کے فنڈز سے من پسند94افسران ایسے ادارے سے آن لائن ٹریننگ کورس لاکھوں روپے کے عیوض کررہے ہےں جس ادارے کو ای او بی آئی کی اے بی سی کا علم ہی نہیں جس ادارے کو ای او بی آئی کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں تو آن لائن ٹریننگ کورس پر لاکھوں روپے افسران کی عیاشیوں پرلگانے کے سواکچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ادارہ2007کے بھرتی ہونے والے افسران اور2014میں بھرتی افسران کی گروپ بندی کا شکار ہوچکاہے جبکہ2014کے بھرتی افسران نے چیئرمین سیکریٹریٹ پر مکمل کنٹرول کررکھاہے چونکہ چیئرمین کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزررہاہے جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے جونیئر افسران نے پورے ادارے پر کنٹرول کرلیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی مظلوم محنت کشوں کی پنشنرز سے قائم ادارہ ہے،انکی یہ رقوم ای او بی آئی کے پاس ا مانت ہوتی ہے جس امانت کو افسران اپنی وراثت سمجھ کر لوٹ مار میں مصروف ہیں ای او بی آئی ویسے بھی آجکل کرپشن میں نمبر ون پر ہے بدقسمتی سے ہمارے محنت کشوں کے ادارے ورکرزویلفیئرفنڈ،سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی کرپشن کی انتہائی بلندیوں پر پہنچے ہوئے ہیں جنکے افسران کو مادرپدر کرپشن کرنے کی مکمل آزادی ہے جبکہ آن لائن ٹریننگ کورس کےلئے افسران کے پاس مطلوبہ کمپیوٹرز،لیپ ٹاپ،انٹرنیٹ کا انفراسٹرکچر موجود ہی نہیں جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ پنشنرز کے فنڈز میں کس طرح لوٹ مار کی جارہی ہے شاید چیئرمین سے افسران وملازمین تک کو نہیں علم کہ ان کی تنخواہیں ودیگر مراعات بھی ادارے میں رکھی گئی مزدوروں کی امانت سے دی جاتی ہیں امانت میں خیانت کرنا گناہ ِعظیم ہے جسکی بخشش بھی ناممکن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ بعض افسران کرپشن میں ملوث اور2017کے پی آئی ایم کے ٹریننگ کورس میں فیل ہوچکے تھے مگر مک مکاﺅ کے بعد ہر اس افسر کانام لسٹ میں ڈال دیاگیاہے جسکو صحیح معنوں میں موبائل بھی چلانا نہیں آتا۔پہلے حامد علی خان گروپ کے چرچے ادارے میں رہے اور اس گروپ نے اپنی من پسند جگہاہوں پر کنٹرول رکھا اب جب اس گروپ کے گریڈ کم کردئےے گئے تو ان کی ہوا نکلنے کے بعد وہ گروپ کمزور ہوگیا جبکہ ٹرانسپرنسی لیبرپاکستان حامد علی خان اور اسکے گروپ کے تمام افسران کو اعلیٰ عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کے سپرد ان کی غیرقانونی سرگرمیاں،کرپشن کو اجاگر کررہا تھا مگر نہ جانے یکدم خاموشی چھاگئی کیونکہ انکے گروپ کے تمام بیشتر افسران جعلی ڈگریوں پر لوٹ مار میں مصروف تھے،خیال کیاجاتا ہے کہ شاید کسی بھی وقت یہ کیس ابھر سکتاہے اور افسران سے اضافی تنخواہیں بھی واپس لی جاسکتی ہیں،اب چیئرمین کے پی ایس اور جونیئر افسر طاہر چوہدری کا گروپ ادارے پر مسلط ہوچکاہے جہاں ہر افسر کو اسکی خواہشات کے مطابق ریجن دئےے جارہے ہےں آن لائن ٹریننگ کورس میں94افسران کی نامزدگی طاہر چوہدری کے کنٹرول گروپ کی مثال ہے۔آج ادارے میں سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں انکے تحت تمام او پی ایس افسران کو ریجنل ہیڈز بنادیا گیا ڈیپوٹیشن پر ادارے میں آنے والوں کو سالہا سال گزرجانے کے بعد انکے اپنے اداروں میں واپس نہیں کیاجارہا کیڈرز کی تبدیلیاں ایسے ہوتی ہیں جیسے کسی بڑے جنرل اسٹور کی ہفتہ وار اشیاءکی تبدیلی کی جاتی ہے ہرسفارشی افسر اپنے کیڈر کی پرواہ کیے بھتہ اکھٹا کرنے والی جگاہوں پر تعینات ہے،خود طاہر چوہدری بیک وقت تین عہدوں کا چارج رکھے ہوئے ہے کوئی افسر رنگے ہاتھوں کرپشن میں پکڑاجائے تو اسکو سزا دینے کے بجائے ایک سے دوسرے شہر یا صوبہ بدر کردیاجاتاہے تبدیلیوں کی پالیسیاں بھی ہیڈآفس کے دو تین افسران تیارکرتے ہیں جو بھاری کمیشن لے کر افسران کو ان کی من پسند جگہاہوں پر تعینات کردیتے ہیں ایسا لگتاہے کہ یہ مزدوروں کا نہیں آل انڈیا کمپنی کا دفترہے جو کام آل انڈیا کمپنی نے کیا تھا وہ ای او بی آئی کے کرپٹ افسران کررہے ہےں اور غریب مزدور گزشتہ چھ ماہ سے اپنے پنشن کے کاغذات بنانے کےلئے دردر کی ٹھوکرے کھانے پرمجبور ہے جس ادارے میں مزدوروں سے زیادہ افسران کی خواہشات کاخیال کرھاجائے گا تو وہ کس طرح اللہ کو اپنا منہ دکھاسکتے ہیں۔