کراچی: لیبررائٹس کمیشن آف پاکستان(رجسٹرڈ) کے چیئرمین منورملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ای او بی آئی کرپشن کی مکمل طور پر یونیورسٹی بن چکاہے جس کے پروفیسرز وہ آفیسرز ہیں جنہوں نے اداروں میں بھرتی ہی صرف لوٹ مار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی وجہ سے کی ہے۔ سابق چیئرمین ظفراقبال گوندل کے زمانے میں اربوں روپے کی کرپشن بھی ہوگیا جیل یاترا بھی ہوگیا افسران کو معطل بھی کردیاگیا ایف آئی اے نے2015کو لوٹ مار کا مقدمہ بھی درج کرلیا ،لیکن کیا ہوا کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق2014-15میں اربوں روپے لوٹنے والے خوشحال ہوچکے انہیں چھ سال سے گھروں میں بیٹھے عیاشیوں کےلئے نہ صرف تنخواہیں دی جارہی ہیں بلکہ انہیں علیحدہ سے تمام دی جانے والی مراعات کی رقم اداکی جارہی ہے۔
منورملک نے کہا کہ وزیراعظم ویسے تو ملک سے کرپشن کاخاتمہ کرنے کےلئے صبح سے شام تک نہیں چھوڑونگا،نہیں چھوڑونگا،این آر او نہیں دونگا مگر انہیں شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے براہ راست ماتحت محکموں میں جو اربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے جو ماضی میں بھی ہوتی رہی آج بھی اسی شدومد کے ساتھ ہورہی ہے،وزیراعظم کے ماتحت محکمے ایف آئی اے نے مقدمات بھی درج کیے ان مجرموں کونہ سزا ہوسکی اورنہ ان کی نوکریاں ختم کی گئیں بلکہ مزدوروں کے اربوں روپے لوٹنے کےلئے صرف انہیں فری ہینڈ دے دیاگیا کہ وہ ای او بی آئی اور ورکرزویلفیئرفنڈ میں بیٹھ کر مزدوروں کے فنڈز سے اربوں روپے کی لوٹ مار کرتے رہیں،ورکرزویلفیئرفنڈ کی گرفتاریاں اسکا بین ثبوت ہے۔ آج ای او بی آئی کی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے ماتحت چلنے والے محکمے جسکی دیکھ بھال زلفی بخاری کررہے ہےں ہر کلیدی عہدے پر ڈیپوٹیشن،انتہائی جونیئر اور ناتجربہ کار سفارشی افسران بیٹھے ہیں جسکی وجہ سے کارکردگی زیروہوچکی ہے منورملک نے کہا کہ اگر وزیراعظم ملک میں ریاست مدینہ کی بنیاد بناناچاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس ملک کے غریب اور مظلوم چھ کروڑ محنت کشوں کو ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کرائیں جو بعد میں خودبخود سوشل سیکورٹی کے اداروں میں رجسٹرڈ ہوجائیں گے کیونکہ جب تک مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا مزدور اورملک خوشحال نہیں ہوسکتا۔
منورملک نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک کے محنت کشوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کی طرح برتاﺅ کیاجارہاہے ای او بی آئی میں ہزاروں پنشن کے کیسز مکمل ہونے کےلئے پاکستان کے تمام دفاتر کی بندالماریوں میں مزدوروں کو نشان عبرت بنانے کےلئے رکھے گئے ہیں آج تک کوئی پنشنرز کے کیسز کے بارے میں دریافت نہیں کررہا کہ آخر وہ کونسے معاملات ہیں جسکی بناءپر بوڑھے پنشنرز کو اپنا کیس وصول کرنے کےلئے دوردراز علاقوں سے دردر کی ٹھوکریں کھاکر دفتر بلوایاجاتاہے اور وہ جاتے ہوئے ای او بی آئی کے افسران اور حکومت کو بددعائیں اور گالیاں دیتے واپس ہوتے ہیں۔
منورملک نے کہا کہ وزیراعظم کرپشن کے خاتمے کی ابتداءپہلے اپنے محکمے ای او بی آئی،ورکرزویلفیئرفنڈ سے شروع کریں کیونکہ یہ دونوں محکمے اربوں روپے کی کرپشن کرکے ڈکار بھی نہیں مارتے بعدازاں صوبوں کے ورکرزبورڈ پر ہاتھ ڈالاجائے جہاں اربوں روپے کاغذی پروجیکٹس پر اڑائے جاتے ہیں جب یہ ادارے کرپشن سے پاک ہونگے تو دیگر اداروں پر سختی کرنا آسان ہوجائےگا،اسکے ساتھ ہی غیرقانونی بھرتیوں،ڈیپوٹیشن پر لائے گئے کرپٹ افسران کو ان اداروں سے باہر نکال پھینکاجائے،اور ساتھ ہی محکموں کے سربراہان سے بازپرس کی جائے کہ او پی ایس پر افسران کو کیوں تعینات کیا گیاہے جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ صرف ان افسران کی کرپشن ہی کےلئے تقرریاں کی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اداروں میں کرپشن کی جاسکے انہوں نے کہا کہ کمیشن کو موصول مکمل تفصیلات کا خط وزیراعظم پاکستان کو بھی ارسال کیاجارہاہے تاکہ عمران خان کو بھی مکمل آگہی ہوسکے۔