کراچی: بالآخر سندھ ورکرزویلفیئربورڈ کا زمینی حقائق کا ادراک رکھنے والے آجرواجیر کے اصل نمائندوں کی غیرموجودگی میں بورڈ کا بجٹ سرکاری اور سیاسی بورڈ ممبران نے اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کےلئے اور بجٹ سے پہلے جو اربوں روپے کے ہوائی پروجیکٹس/اخراجات کئے گئے ہیں اس بلیک منی کو وائٹ منی بنانے کےلئے بجٹ کو منظور کرنا بورڈ افسران کےلئے انتہائی ضروری ہوگیا تھا کہ بیچارے اور غریب افسران جنہوں نے جو کچھ بجٹ سے پہلے خرچ کررکھا تھا اسکو قانونی شکل دے کر اپنے آپ کو سرخرو کریں اور افسران کو سرخرو کرنے کا یہ ٹھیکہ گزشتہ دس سال سے بورڈ کے ڈمی،سرکاری اور سیاسی بورڈ ممبران نے اٹھارکھاہے تاکہ افسران کوکوئی پریشانی نہ ہوکیونکہ جو بجٹ منظور کیا جاتاہے وہ بورڈ ممبران کی جاگیر ہوتا۔اس کی وجہ کہ انہوں نے نہ مرناہے نہ انہیں موت یاد ہے اور نہ قیامت کے روزمزدوروں کے ہاتھ انکے گریبانوں تک پہنچنا یاد رہے ہیں۔بورڈممبران کو توصرف یہ یاد ہے کہ انہیں اپنے آقاﺅں کو کیسے خوش رکھنا ہے انکے دئےے گئے سیاسی عہدوں کو کیسے محفوظ رکھناہے مزدوروں کے فنڈز ہیں جس طرح خرچ کردئےے جائیں،حکومت بھی ہماری ادارے بھی ہمارے مزدوروں کا اس میں کیا عمل دخل ہے یہ آج کے بورڈ ممبران کی سوچ کا عالم رہ گیاہے ایسا لگتاہے کہ چند سیاسی رہنماﺅں اوربورڈ کے ممبران نے بورڈ میں جنگل کا قانون نافذ کردیاہے اور اس قانون کوکنٹرول کرنے کےلئے بورڈ کے کرپٹ افسران کو ٹھیکے دار بنادیاہے جیسے وہ خود بورڈ کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں بجٹ منظور کے وقت بورڈ کے اصل نمائندے غیرحاضر رہے کیونکہ دیگر بورڈممبران نہیں چاہتے تھے کہ فنانس کمیٹی سب کچھ کرے آڈٹ کو بورڈ میٹنگ میں لایا ہی نہیں گیا، ان ہی کرتوت کی وجہ سے آج وفاق کے عسکری وسول اداروں میں سندھ ورکرزویلفیئربورڈ کے چرچے عام ہورہے ہےں کرپشن کی داستانیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ بورڈ کو وفاق میں واپس لیاجائے بے حسی کا یہ عالم ہے کہ مزدوروں کی خدمت کرنے کے دعویداروں نے مزدوروں کے فنڈز سے باربی کیو ٹونائٹ سے دوپہر کا کھانا کھایا اور سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان مزدوروں کے دعویداروں کو مزدوروں کے فنڈ سے منگوایا گیا کھانا کیسے ہضم ہوگیا اب اسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مزدوروں سے کون کتنا مخلص ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی طرز عمل کی طرح ہر بورڈ کا ممبر اپنے گھر سے کھانا لاتا اور سب مل کر کھانا کھاتے اور ہزاروں روپے جوکھانے پر خرچ کئے گئے ان کی بچت ہوجاتی اب جن لوگوں کے منہ مزدوروں کا فنڈز لگ چکا ہو وہ مزدوروں کا کیوں کر خیال رکھیںگے۔