عامر مرزا ۔۔۔۔۔
سورج مشرق سے ابھر رہا تھا، گندم کی فصل کٹنے کے بعد چاروں طرف زمین ویران پڑی تھی، دور آسمان اور زمین آپس میں ملتے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ ذیشان یہ سارا منظر شیشم کے گھنے درخت کی چھاوْں میں ہری ہری گھاس پر بیٹھے ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے دیکھ رہا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کے سرورق پر بنی تصویر میں ایک نوجوان اپنے بوڑھے باپ کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا جبکہ عنوان مزدور زندہ باد تھا۔

کتاب میں ایک مزدور کی کہانی بیان کی گئی تھی جس نے اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے تھے، پرانے وقتوں میں میٹرک کرنے والا یہ شخص مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پھر حالات اور مفلسی سے لڑتے لڑتے بوڑھا ہو گیا لیکن اس نے اپنے خواب سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ اپنے خوابوں کو روز یاد کرتا اور اُمید باندھے رکھتا۔ اس کی زندگی مزدوری کرتے کرتے یوں ہی گزرتی رہی جیسے کسی بھی عام مزدور کی گزر جاتی ہے۔
بوڑھے رحمت نے بہت سی ادبی و مذہبی کتابیں پڑھ رکھی تھیں جن سے اس کی تاریخ پر دوسرے مزدوروں کے مقابلے گرفت کافی مضبوط تھی، ایک دن جب وہ تھکا ہارا گھر آیا تو اس کے پوتے نے پوچھا! دادا جان یکم مئی کیوں منایا جاتا ہے؟
اس سوال پر اس کے ذہن میں وہ سارے مناظر گویا چلتے پھرتے اس کے سامنے آ گئے، وہ ان میں کھو گیا اور پوتے کو بتانے لگا، “یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے، اس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے خقوق کے لیے ریلیاں اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ 1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونیز نے ایک اجلاس میں قرارداد کے ذریعے کچھ مطالبات پیش کیے جن میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے لیے 16 گھنٹوں کے بجائے 8 آٹھ گھنٹے کام کرے کی تجویز تھی، لیکن یہ مطالبہ نہ مانا گیا۔ احتجاجاً یکم مئی کو مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کر دی، 8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مشہور ہوا اور 1886ء شکاگو میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ مزدوروں نے ہڑتال کی اور ایک تحریک کا آغاز کیا۔ پولیس کی طرف سے ان پر فائیرنگ کر دی گئی ان کے سفید پرچم خون سے سُرخ ہو گئے۔’’س

یہ کہتے ہوئے رحمت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جنہیں پونچھتے ہوئے وہ پھر گویا ہوا، “اس دن سے مزدوروں کا پرچم سُرخ ہے لیکن ان مزدوروں نے اس وقت تک ہمت نہیں ہاری جب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر لیا گیا۔ 1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر لیبر ڈے منانے کافیصلہ ہوا، یکم مئی 1990ء کو پہلا یوم مزدور منایا گیا اس کے بعد سے یہ دن عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے۔”س
ذہین پوتے نے اب ایسا سوال پوچھا کہ خود رحمت بھی ٹھٹک گیا، “دادا جان، ان قربانیوں کا فائدہ کیا ہوا، کیا انہیں وہ سارے حقوق مل گئے ہیں جن کا وہ مطالبہ کر رہے تھے۔ “س
یہاں سب مزدوروں میں آگے بڑھنے کی امید بندھانے والے بابا رحمت کی ہمت بھی جواب دے گئی، اس کو پتہ تھا کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنے ووٹ کھرے کرنے کیلئے مزدوروں کو جو لالی پاپ دے رکھا ہے اس میں ہفتہ وار چھٹی، انجمن سازی، لیبر کورٹس اور سب سے بڑھ کر ملازمت کا تحفظ شامل ہیں لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ حقیقت دیکھی جائے تو مزدور کو تو عام دنوں میں دیہاڑی ملنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ جب وہ ٹھیکیداری پر جاتا ہے وہاں رش ہی اتنا ہوتا ہے کہ عام مزدور کو ترلے منتوں اور سفارش کے بغیر مزدوری کیلئے لے جایا ہی نہیں جاتا، سارا دن کمائی کے بعد جو پیسے ملتے ہیں، اس سے وہ ایک وقت کی روٹی اپنے اہل خانہ کو نہیں کھلا سکتا، وہ چھٹی کا روز کیسے منا سکتا ہے۔ مزدور انجمنیں بھی سیاسی جماعتوں کے پروردہ لیڈروں کے قبضے میں جا چکی ہیں جو اپنا فائدہ حاصل کر کے سازباز کر لیتے ہیں اور مزدور وہیں کا وہیں مفلس اور خالی پیٹ ہے۔

رہا لیبر کورٹس کا معاملہ تو جو مزدور اپنے خاندان کو روٹی نہیں دے سکتا وہ عدالتی خواری کیسے سہے گا۔ بس رحمت سے اب رہا نہ گیا، آنکھوں سے باہر نکلنے کو تیار آنسو اس نے بڑی مشکل سے پی لئے اور پوتے کو پھر امید دلا دی، ” بیٹا اپنا وقت آئے گا۔ “س
ذیشان نے کہانی مکمل کی اور نہ جانے کس خیال کے تحت اٹھ کھڑا ہوا اور فضا میں مکے لہراتے زور زور سے نعرے لگانے لگا، “مزدور زندہ باد، مزدور زندہ باد۔ “
نوٹ: ادارے کا قلمکار کے خیالات اور پیش کردہ مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں