کراچی(رپورٹ:امیرصدیقی) یوں تومحکمہ محنت سندھ کے تمام اداروں کے کسی بھی افسر سے پوچھ لیاجائے کہ وہ سیاسی طور پر کس سے وابسطہ ہے کوئی ہی بدنصیب یا ایماندار افسر ہوگا جو کسی سے تعلق داری کارشتہ جوڑتا ہوا نظرنہیں آئیگا۔
ان محکموں جن میں لیبرڈائریکٹریٹ،ورکرزبورڈ،سیسی میں ایسے افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جسکے کسی نہ کسی ایم این اے،ایم پی اے یا کسی وزیرکا نزدیکی تعلق داری نہ ہو۔
آج کل محکمہ محنت کے اداروں میں افسران کی زیادہ نیازمندی سعید غنی اور ناصر حسین شاہ کے ناموں سے لی جارہی ہے اور ان اداروں کے انتہائی کرپٹ افسران اوربعض گورننگ باڈی کے ممبرز ان دونوں وزراءسے اپنے نزدیکی تعلقات ظاہرکرتے پھررہے ہوتے ہےں،انکے قصے یہ سب کچھ میڈیا ہی تک محدود نہیں بلکہ ہر ادارے کا ہر ملازم وافسر ان تعلقات کو یقینی بنائے گا کہ واقعی کرپٹ افسران کے تانے بانے ان دو وزراءسے جاملتے ہیں اور ویہی وجہ ہے کہ وزراءسے تعلق داری کی بناءپر کرپٹ افسران نے اپنے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی ہے اورکرپشن کو اس انتہاءپر پہنچادیاہے جو واپس یا کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی یہ سلسلہ افسران تک ہی محدودنہیں بلکہ بعض جعلی مزدوررہنماء،کنٹریکٹرز بھی ان وزراءسے اپنے تعلقات کی قصہ کہانیاں گھڑتے سنائی دیتے ہیں کیا ہی بہتر ہے کہ دونوں وزراءجنکا تعلق ماضی اورحال میں محکمہ محنت سے ہے یا رہاہو وہ ایسے تمام کرپٹ افسران کو اپنی صفوں سے باہر نکال پھینکیں جو انکو بدنام کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں بعض افسران کو تو یہ تک سنتے دیکھا گیاہے کہ وہ کرونا وباءکے دوران بھی وزیر کے نام پر بھتہ دیتے رہے ہےں اور باقاعدہ محکموں کے افسران سے وزیرمحنت کے نام سے بھتہ مانگا جاتارہاہے یہ سعید غنی پر منحصر ہے کہ ایسے لوگوں اور ایجنٹوں کا کھوج لگوائیںجو ان کے نام پر بھتہ وصول کررہے ہےں اور ایسے لوگوں یا افسران کو ہمیشہ کےلئے بلیک لسٹ کریں جووزیرمحنت کو بدنام کررہے ہےںکیونکہ ایسے معاملات کبھی بھی چھپے نہیں رہتے ان اداروں میں ماہانہ رقم دینے والی افسران کی ایک فوج ہے جس سے یہ راز چھپ ہی نہیں سکتا۔