کراچی: پورے ملک کے چاروں صوبوں میں سے صرف ایک صوبے سندھ سے اٹھارویں ترمیم کو زندہ رکھنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں باقی صوبے شاید اٹھارویں ترمیم کے عذاب کو برداشت کررہےہیں کیونکہ ناانصافی کا دوسرا نام اٹھارویں ترمیم ہے ۔
اس انسان دشمن ترمیم کے خوفناک اثرات کم ازکم سندھ کے مزدوروں پر تو بہت پڑے ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت کے ادارے مادرپدر آزاد ہوگئے کرپشن اور لوٹ مار کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ72سالہ پاکستان کی تاریخ میں رقم نہ کی گئی ہوں محکمہ محنت سندھ کے سیکریٹریٹ سے تمام ذیلی اداروں کا منشورہی صرف کرپشن رہ گیاہے جسکی وجہ سے آج ان اداروں میں تمام حکمرانوں،ایجنسیوں،تحقیقاتی اداروں،ادارے کے سربراہان اور سیاسی وزراءکو سب کچھ علم ہے کہ محکمہ محنت کے اداروں میں کرپشن کے سواکچھ نہیں ہورہا مزدوروں کے فنڈز سے اربوں روپے ٹھکانے لگائے جارہے ہےں مگر افسوس آج تک نہ بڑے صاحب نے اور نہ ہی چھوٹے صاحب نے مزدوروں کے زخموں پر مرہم تک نہیں رکھا اور سب اچھا ہے کا نعرہ لگاکرمزدوروں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا جاتا ہے وہ تحفہ جو اٹھارویں ترمیم نے سندھ کے مزدوروں کو دیا کہ مزدوروں زخموں کا علاج بھی خود کراﺅ اور زخم بھی خود لگاﺅ سو سندھ کا مزدور زخموں سے چور چور ہوکر اپنے تمام حقوق غضب کروائے بیٹھاہے نہ ان کی سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن ہورہی ہے نہ انہیں تقرری خطوط دلوائے جارہے ہےں نہ ہی سرکار کی مقرر کردہ اجرت مل رہی ہے۔
جنگل کاقانون ہے جو محکمہ محنت کے اداراں میں نافذ ہے جتنی بڑی کوئی افسرکرپشن کرتاہے وہ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی آنکھوں کا تارا بن جاتاہے اربوں روپے کے پروجیکٹس صرف کاغذوں میں دکھاکر اوپر نیچے کئے جارہے ہےں مگر اٹھارویں ترمیم کسی کے گلے میں پٹاڈالنے نہیں دے رہی اب مزدوروں نے اللہ سے امید یں لگالی ہیں کہ اسکا عذاب کب نازل ہوگا جو اٹھاریں ترمیم کے کے ثمرات سمجھنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا وگرنہ کوئی طاقت نہیں جو مزدوروں کے حال پر رحم کرے۔