کراچی(رپورٹ:عمیرشاہ) سناہے کہ کسی وقت کسی ادارے میں کرپشن کاحکومت کو علم ہوجاتا تو پوری مشنری متحرک ہوجاتی تھی اور جب تک کرپٹ ملازم یا افسر کے خلاف انکوائری کرکے اسکو گھر نہ بھیج دیاجاتا اس وقت تک حکومت چین سے نہیں بیٹھتی تھی جبکہ اسکے برعکس آج ملک کے ہر ادارے میں کرپشن کرنے کو اپنی ڈیوٹی کاحصہ سمجھاجاتاہے بالخصوص محکمہ محنت کے وفاقی وصوبائی ادارے جو پاکستان کے سب سے بڑے مظلوم طبقات محنت کشوں کےلئے اپنی خدمات انجام دینے کےلئے قائم ہوئے ہیں ان اداروں میں کرپشن اسقدر عروج پر پہنچ گئی ہے کہ لگتاہے کہ محکموں اور ملک میںجنگل کا قانون نافذ ہوچکا ہے محکمہ محنت کے وفاقی وصوبائی اداروں کے دیانت دار افسران ،ملازمین اورلاکھوں مزدوراپنی آنکھوں سے اپنے اداروں میں ہونے والی کرپشن کو دیکھ دیکھ کر انتہائی مایوس ہوچکے ہیں اور ان کی بہتری کےلئے تمام امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں اب تو کسی اخبار یا ٹی وی چینل میں محکمہ محنت کے اداروں کی کرپشن رپورٹ شائع ہوتی بھی ہیں تو کچھ نہیں ہوتا ۔
دیانتدار افسران وملازمین کا یہی کہنا ہوتاہے کہ میڈیا کتنی ہی طاقت لگاکر کرپشن اور ان میں ملوث عناصر کو بے نقاب کتنا ہی کرلے موجودہ حکومت بالخصوص صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے نہ کسی افسران کے خلاف کاروائی ہوگی نہ کسی افسرکو کچھ کہاجائے گا اور جن وفاقی وصوبائی تحقیقاتی اداروں میں انکوائریاں چل رہی ہیں انکو بھی فائنل نہیں ہونے دیاجائے گا تاکہ کرپٹ افسران کی بازپرس نہ ہوسکے اب وزیراعظم عمران خان خودغورکریں کہ وہ کرپشن کے خاتمے میں کس قدر مخلص ہیں اورمحکمہ محنت کے وفاقی وصوبائی ادارے کرپشن کو پروان چڑھانے میں اپنا کیا کردار اداکررہے ہےں پاکستان کا یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کو اس بارے میںسوچنے کی اشد ضرورت ہے۔