سکھر(رپورٹ:محمداکرم) ورکرزبورڈ میں تعلیم کاایک ہی شعبہ رہ گیا تھا جو بربادی سے بچاہوا تھا جس شعبے کے ذریعے نہ صرف سندھ میںپھیلے ہوئے چالیس ہزار سے زائد مزدوروں کے بچوںکو تعلیمی سہولیات دینے کاایک سلسلہ طویل عرصے سے جاری تھابلکہ ورکرزماڈل اسکولز میںہزاروں زیرتعلیم مزدوروں کے بچے اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہورہے تھے،مگرنہ جانے کن عقل کے اندھوں نے نااہل بورڈ ممبران کو مشورہ دیا کہ تمام بچوں کی مراعات ختم کرکے چھ ہزار روپے ماہانہ بچوں کے والدین کو دے دئےے جائیں یعنی بورڈ ممبران نے ایک بچے کی زندگی کا سودا صرف چھ ہزار روپے میں کردیاہے۔
یہ فیصلہ بورڈ کے ان ممبران نے کیا ہے جنکو آج تک زمینی حقائق کا علم ہی نہیں کہ ورکرزماڈل اسکولز میں زیر تعلیم بچوں کا صرف آکسفورڈ یونیورسٹی کاایک کورس چھ ہزار روپے سے زائد رقم کا ہے باقی تعلیمی مراعات جن میں کورس کی دیگر کتابیں،کاپیاں،رجسٹر ،جوتے،بیگ ودیگر ضروری اشیاءسندھ میں پھیلے ہوئے ہزاروں مزدوروں کے بچوں کو دی جارہی ہیں اب چھ ہزار روپے دینے کے بعد بورڈ ممبران یہ امید رکھتے ہیں کہ ماڈل اسکولز کھلے رہیں گے یہ ناممکن ہے اور جس دن چھ ہزار روپے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا اس دن سے مزدور چھ ہزار روپے لے کر اپنے بچوں کو ورکرزماڈل اسکول سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرواکر ورکرزماڈل اسکولوں سے ہمیشہ کےلئے جان چھڑالیگا۔اب جب بورڈ ممبران نے ہٹ دھرمی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرہی لیا ہے تو وہ ممبران سب سے پہلے مزدوروں کے بچوں کے اسکالرشپ کے وہ چیک تو ریلیز کرائیں جو گزشتہ دس سال سے نہیں دئےے جارہے۔ جسکی وجہ سے مزدوروں نے اسکالرشپ ہی کی امیدیں ختم کردی ہیں،بعدازاں تعلیمی سہولیات کے چھ ہزار روپے اداکرائیں ،
اس ناقص فیصلے کے بعد جو حالات نظرآرہے ہےں اس سے یہی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مزدوروں کو ایک ہی دفعہ وقت پر مقررہ رقم دے دی جائے گی بعدازاں وہ بھی اسکالرشپ کے چیک کی طرح سالہا سال چھ ہزار روپے کاانتظار کریں گے اب بورڈ ممبران زمینی حقائق جاننے کےلئے ورکرزماڈل اسکولز کے بارے میں مکمل رپورٹ طلب کریں اور اگر بورڈ ممبران یہ چاہتے ہیں کہ اسکولز کھلے رہیں اور ہمیشہ بچوں کو بہترین تعلیمی ماحول ملتارہے توورکرزماڈل اسکولز کے طلباءطالبات پرچھ ہزار روپے کااطلاق فوری بندکردیں تاکہ ان بچوں کو تعلیمی سہولیات اسی طرح سے دی جارہی ہیں ۔آج بورڈ ممبران اوپن مارکیٹ میں نکلیں اورچھوٹے سے چھوٹے اسکول کا کورس پوچھیں تو اندازہ ہوسکے گا کہ بچو نکا متعلقہ کورس چھ ہزار روپے سے کہیں سے زیادہ میں فروخت ہورہاہے بندکمروں میں مزدوروں کے بچوں کے فیصلے کرتے وقت بورڈ ممبران اپنے بچوں کی تعلیم کو بھی سامنے رکھیں کہ بورڈ ممبران کے بچوں کے کورس اور تعلیم پر کتنے اخراجات کیے جاتے ہیں مزدور کو مزدور نہ سمجھاجائے اوریہ رقم وہ بورڈ ممبران کی حیثیت سے نہیں لے رہے بلکہ اپنی رقم اپنے فنڈز سے لے رہے ہےں جو بورڈ نے انکو بھکاری بنادیاہے۔
دراصل یہ ورکرزماڈل اسکولوں کو بندکرانے کی گھناﺅنی سازش ہے مگر سندھ کے مزدور اس گھناﺅنی سازش کو چند لوگوں کی خواہشات کے مطابق پورا نہیں ہونے دیں گے۔اور اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں ضرور لے جائیں گے کیونکہ ایسی اطلاعات آنا شروع ہوگئی ہیں کہ جو ادارہ مزدوروں کے بچوں کو اسکالرشپ سالہا سال سے نہیں دے رہا وہ چھ ہزار روپے کس طرح دے گا اگربورڈ ممبران کو ایجوکیشن میں کچھ کرپشن نظرآرہی ہے تو پہلے وہ بورڈ کے تمام شعبوں میں کرپشن کاخاتمہ کرے پھر ایجوکیشن کےلئے ٹھوس منصوبہ بندی کرے چھ ہزار کو کتابوں کی مد میں دینا یہ ٹھوس پالیسی نہیں بلکہ اسکولز کو بندکرنے کی سازش ہے جب اسکولز بند ہونگے تو سینکڑوں اساتذہ بھی بے روزگارہوجائیں گے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ناقص سسٹم کو فوری روکاجائے یہ نہ ہو کہ اس نظام کو اعلیٰ عدالت ہی روک دے کیونکہ یہ زمیں بوس نظام رائج کیاجارہاہے جو چند لوگوں کے ذہنوں کی پیداوار ہے وگرنہ کچھ نہیں یہ ادارے کی خدمت نہیں اسکوبرباد کرنے کی سازش ہے۔