اسلام آباد: ٹرانسپرنسی لیبرپاکستان(رجسٹرڈ) کے ترجمان نے سیکریٹری سندھ ورکرزبورڈ کی توجہ ورکرزبورڈ کے سندھ میں پھیلے ہوئے فلیٹس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کے مزدوروں کی دس بارہ سال سے بدقسمتی رہی ہے کہ سندھ کے مزدوروں نے دس بارہ سال پہلے تمام قانونی تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے فلیٹوں کے حصول کےلئے نہ صرف کاغذات ادارے میں جمع کرائے بلکہ کروڑوں روپے رشوت کے طور پر بھی متعلقہ افسران کو نظرانہ دیا کراچی کے4008فلیٹس کی قرعہ اندازی سے پہلے سابق وزیر امیرنواب کے دورمیں چالیس ہزار سے ایک لاکھ روپے ایڈوانس لیا گیا اور قرعہ اندازی کا تمام جعلی نیٹ ورک گلشن اقبال کے ایک فلیٹ میں کراچی یونیورسٹی کے چند آئی ٹی ایکسپرٹ سے اس طرح ڈیزائن کرایا گیا کہ قرعہ اندازی میں ان ہی ورکرز کے نام ظاہرہوں جنہوں نے ایڈوانس میں رقوم دی ہوئی تھیں اس طرح الاٹمنٹ اورقبضہ دینے سے پہلے کروڑوں روپے وصول کیے گئے بعدازاں جب قرعہ اندازی کا عمل مکمل ہوا تو ورکرز سے بیس سے چالیس ہزار روپے فلیٹوں کا قبضہ دینے کےلئے بھی ایجنٹس مارکیٹ سے ورکرز سے یہ رقوم وصول کررہے ہیں
ترجمان نے کہا کہ گلشن معمار کے تقریباً80فیصد فلیٹس کو ورکرز سے پرائیویٹ لوگوں نے ورکرز کے قبضے سے پہلے ہی خرید لئے اور آج تک آٹھ سال کا عرصہ گزرگیا ورکرز کو نہ گلشن معمار کے فلیٹس کا قبضہ دیا گیا اورنہ امید ہے۔اب نادرن بائی پاس کے فلیٹس سے متعلق نئی کمیٹی بنادی گئی تاکہ جو خون مزدوروں میں رہ گیاہے وہ بھی چوس لیاجائے ٹرانسپرنسی کو ایسے شواہد موصول ہوئے ہیں کہ نادرن بائی پاس کے فلیٹس کےلئے چالیس ہزار فی فلیٹ رشوت وصول کی جارہی ہے اب بورڈ میں بننے والی کمیٹی میں بورڈ افسران کیساتھ مستند اور فعال مزدور تنظیموں بالخصوص ای ایف پی نمائندگان کو شال کیاجائے کراچی ہی نہیںپورے سندھ میں پھیلے ہوئے فلیٹس کی کمیٹیوں میں شامل کیاجائے بصورت دیگر اربوں روپے کے مزدوروں کے فنڈز سے بنائے گئے فلیٹس من پسند لوگوں کو آزادانہ طور پرقبضہ نہیں لینے دیں گے اورہائیکورٹ کو تمام صورتحال سے آگاہ کرکے نئی کمیٹیوں کی تشکیل کےلئے رجوع کریں گے۔