کراچی: یوں تو آئے دن ورکرزبورڈ کی زمینیں بالخصوص لیبراسکوائر ،لیبرکالونیاں سندھ میں جہاں جہاں بھی آباد ہیں وہاں کے خالی اور نقشہ کے مطابق جو پلاٹس موجود ہیں انکو وہاں کے کیرٹیکرزہمیشہ فروخت کرتے رہے ہیں کروڑوں روپے کے قیمتی پلاٹس کو فروخت کرنے والے کسی بھی کیرٹیکرز کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی۔ بلکہ انہیں ترقیاں دے کر اتنا مضبوط کردیاجاتاہے کہ وہ بورڈ کی ہر جگہ کو فروخت کرنے میں خودمختار ہو جاتے ہیں
کورنگی لیبر اسکوائر 32اےمیں تقریباً پندرہ پلاٹوں کو نہ صرف فروخت کردیا گیا ہے بلکہ غیرقانونی طور پر ان ایمونٹی پلاٹس پر دوکانیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ کورنگی لیبراسکوائر میں آج تک نہ کوئی ایمونٹی پلاٹ بنایا گیا ہے جس پر مسجد،ڈسپنسری،مدرسہ،شادی ہال یا انڈسٹریل ہوم کےلئے جگہ چھوڑی گئی ہو۔ جبکہ کورنگی لیبراسکوائر کے مکینوں کی شروع دن سے یہ بدنصیبی رہی ہے کہ محتسب اعلیٰ کے احکامات کے باوجود ورکرزبورڈ نے پانی کی سپلائی تک کو یقینی نہیں بنایا اور آج بھی کورنگی لیبراسکوائر پانی سے محروم ہے،کورنگی لیبراسکوائر کے پانی کی مد میں جو رقوم خرچ ہوتی ہےں وہ کہاں جاتی ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔
کرونا وباءاور گرمی کی شدت سے جب تمام لوگ اپنے گھروں میںبند ہیں تو بغیر پانی کے کیسے گزارا کیاجاسکتاہے کورنگی لیبراسکوائر کے مکینوں نے وزیرمحنت سندھ سے اپیل کی ہے کہ ویسے تو وزیرمحنت صبح سے شام تک مختلف موضوعات اور حکومت کی ترجمانی کرتے تھکتے نہیں۔مگر ان کی اپنی وزارت میں کورنگی لیبراسکوائر کے مکینوں کو سالہا سال سے پانی مہیا کرانے میں وہ ناکام نظرآتے ہیں،انہیںشاید مزدوروں کی آہ وبکا کی کوئی پرواہ نہیں کہ غریب محنت کش کس طرح بغیر پانی کے اپنی زندگی گزارہے ہےں وہ ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے باہر نکلیں کورنگی لیبراسکوائر کا دورہ کریں تو علم ہوگا کہ کس طرح جانوروں کی طرح مزدورزندگی گزار رہے ہےں اور لاکھوں روپے کے پانی کے بلوں کی بغیر پانی سپلائی کے ادائیگی کس طرح کردی جاتی ہے،یوں تو ورکرزبورڈ میںاربوں روپے کی کرپشن کے قصے کہانیاں پورے ملک میں زبان زدعام ہیں مگر ورکربورڈ کی لیبرکالونیاں،لیبراسکوائرز ،انسانوں کے رہنے کی جگہاہیں کم جانوروں کے لئے زیادہ لگ رہے ہےں مگر سندھ کے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رینگتی وہ صرف اٹھارویں ترمیم کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم ہی ان کی زندگی کااثاثہ ہے جبکہ مزدوروں کےلئے اٹھارویں ترمیم موت سے کم نہیں۔