لاہور(فضاءامبر) آج کی اکیسویں صدی میں وہ کچھ ہورہاہے جو پتھر کے زمانے میں ہوتارہا تھا آج پاکستان میں مزدور ہربڑے آدمی کےلئے گالی بن چکاہے یہ مزدور آج سیاستدانوں کےلئے صرف ووٹ ڈالنے کی مشیں تک محدود ہوکر رہ گیاہے اسمبلی ممبران نے جو مزدوروں،کسانوں اور غریبوں کے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں وہ اسمبلیوں میں پہنچ کر سب سے پہلے مزدوروں ،کسانوںسے کئے وعدے آئندہ پانچ سال تک بھول جاتے ہیں انہیں زمینی حقائق کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان کے ہرصوبے بالخصوص پنجاب میں مزدوروں کی کس طرح فرویدوفروخت ہوتی ہے کس طرح خاندانوں کے خاندان ظالم وڈیروں ،چوہدریوں ،ملکوں ،سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کیے جاتے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ جو ظلم ہوتاہے اس سے زمین بھی کانپتی ہے اور آسمان بھی لرزتاہے۔
مگر نہیں معلوم تو اسمبلی ممبران کو اس ظلم کی خبر تک نہیں اگر اسمبلی ممبران جو اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کااختیار رکھتے ہیں توپھر وہ انسانوں کی خریدوفروخت کا سخت قانون کیوں نہیں بناتے،تاکہ انسانوں کی خرویدفروخت جو جانوروں کی طرح کی جاتی ہے وہ بند ہوسکے یہ زمیندار لوگ اپنے جانوروں کو تو وہ کھانا کھلاتے ہیں جو ان غریب لوگوں نے زندگی بھر نہیں دیکھا ہوتا ۔
آج ملک کے چپے چپے پر مزدوروں کو خرید کر ان سے حیوانوں کے جیساظلم کیاجارہاہے رسوں اور لوہے کی بیڑیوں میں بند ہوئے یہ مزدور بیماری کی حالت میں بھی ان درندہ نما انسانوں کی زمینوں دیگر جگاہوں پر کام کرتے دیکھائی دیتے ہیں حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ان درندوں اور مظلوم مزدوروں پر مکمل حقائق کی ایک ویڈیو تیار کی ہے اور یہ اسمبلی ممبران اس ویڈیو کو یوٹیوب پر بھی دیکھ سکتے ہیںسوال یہ پیداہوتاہے کہ 72سال میں انسانوں کی غیرقانونی خریدوفروخت پر قانون نہیں بنایا گیا اور اگر بنایا ہی گیاہے تو صوبوں کی حکومتیں خاموش کیوں ہیں بتایا جائے کہ رسیوں،بیڑیوںمیں جکڑے مزدور کس سے انصاف طلب کریں،ملک کی عدالتیں کیوں ازخودنوٹس نہیں لیتی،کیوں خاموش بنی ہوئی ہیں کیونکہ نشاندہی کرنے والوں کو سپورٹ کرکے اس ظلم کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے دفن کردیاجاتاہے۔