کراچی: سندھ لیبرفیڈریشن کے صدر شفیق غوری نے ڈی جی نیب کی توجہ سیسی کے فنڈز سے875ملین روپے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں غیرقانونی طور پر وزیرمحنت کے کوآرڈی نیٹر نے نہ جانے کن کے اشاروںپر جمع کرائے خطیر رقم کسی وزیر یا کوآرڈی نیٹر کی میراث نہیں تھی یہ فنڈز خالصتاً غریب مزدوروں کی تنخواہوں سے جو کٹوتی کی جاتی تھی سیسی کو چلانے کےلئے ادارے میں امانتاً جمع کرائے جاتے ہیں تاکہ اس فنڈز سے مزدور اپنے لئے طبی سہولیات حاصل کرسکیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑررہاہے کہ گزشتہ دس سال سے سیسی کے فنڈزمزدوروں پر کم سیاسی جگادریوں کی فرمائشوں پر زیادہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔
شفیق غوری نے کہا کہ سابقہ مشیرمحنت جونیجو نے فنڈز کو اپنی جاگیر سمجھ کر اڑایا اسی زمانے میں سیسی سے875روپے کا فنڈز غیرقانونی طور پر نکال کر اسٹاک ایکسچینج میں لگادیا گیا جبکہ اسٹاک ایکسچینج میں سیسی اکاﺅنٹس ریکارڈ پر ہی نہیں ہے بلکہ پرائیویٹ کمپنی کے نام سے یہ فنڈز جمع کرائے گئے ہیں جسکا قانونی طور پر سیسی کلیم کرنے سے قاصر ہے اسٹاک ایکسچینج کے معاملات پر نیب سندھ نے سیکریٹری لیبر سندھ کو تمام حقائق کےلئے باقاعدہ ایک خط مورخہ31اکتوبر2019کو تحریر کرکے تمام معلومات ریکارڈ کے ساتھ طلب کی تھی مگر تاحال کچھ علم نہیں ہوسکا کہ سیسی کے875ملین روپے اسٹاک ایکسچینج ہڑپ کرگیا یا سیسی کا کورونا مافیا ہڑپ کرگیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈی جی نیب سندھ کو تحریری خط بھی لکھا جارہاہے اور میڈیا کے ذریعے آگہی دی جارہی ہے کہ وہ نیب سے جاری ہونے والے خط نمبر4151مورخہ31اکتوبر2019کے بارے میں متعلقہ افسران سے جواب طلب کریں کہ متعلقہ افسران نے کیا رپورٹ تیار کی ہے اس کے علاوہ سیسی کی اندرونی انکوائری کے دوران غریب مزدوروں کے نام پر میڈیکل افسران نے بھاری کرپشن کرنے کےلئے تین مختلف بینکوں میں غریب مزدوروں کے جعلی بینک اکاﺅنٹس کھلواکر کروڑوں روپے مزدوروں کو جعلی میڈیکل سہولیات ظاہر کرکے بینکوں سے نکال کر ہڑپ کرلئے،ڈی جی نیب کو سیسی میں ہونے والی ایک ارب سے زائد کی انکوائریوں کے بارے میں بھی نشاندہی کی جائے گی ڈی جی نیب سندھ کو ہی نہیں وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین نیب اسلام آباد کو بھی آگہی دی جائے گی کہ ایک ارب کے لگ بھگ کرپشن کی تمام رپورٹس کمشنر سیسی سے طلب کریں اور ان میں جو کرپٹ افسران ملوث ہیں ان سے رقوم بھی واپس لی جائیں ان کی نوکریاں ختم اور انہیں پابند سلاسل کیا جائے ساتھ ہی کمشنر سیسی ادارے کے جعلی ڈگری ہولڈرز کے بارے میں فوری کاروائی کرکے معاملات کو یکطرفہ کریں کیونکہ دو سال سے جعلی ڈگریوں کا معاملہ چوں چوں کا مربہ بناہواہے نہ یہ مربہ ہضم ہورہاہے نہ باہر نکل رہاہے ۔