کراچی(لیبرنیوز رپورٹ) کرپشن تحقیقات میں سستی پر سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کے جسٹس عمرسیال کی سرابراہی میںفاضل جج نے تحقیقات میں نیب حکام کی سست روی پر برہمی کااظہار کیا ہے اور فاضل جج نے کہا کہ ہر دوسرے کیس میں نیب کی جانب سے کہاجاتاہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی نیب حکام کی جانب سے تحقیقات میں تاخیر پر ہائیکورٹ نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ تحقیقات میں تاخیر پر ڈی جی نیب کراچی کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کی جائے ۔
ریمارکس میں نیب کی نااہلی کی وجہ سے اہم کیسز میں ملزمان کے خلاف کئی کئی سال سے تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں جب نیب نے تحقیقات مکمل نہیں کرنی تو ملزمان کو ہرہفتے عدالت کیوں بلوائیں جس پر عدالت نے ڈی جی نیب کراچی کو آئندہ سماعت پر پیش ہوکر وضاحت دینے کا حکم دیا دوسری جانب محکمہ محنت کے اداروں کے افسران کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں تو افسران کی بڑی تعداد نیب زدہ ہے بلکہ وی آرکرواکر اپنی اچھی جگہاہوں پر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہےں جبکہ عدالتی فیصلہ واضح ہے کہ وی آرکرنے والوں کا جرم بھی پلی بار گین کرنے والوں کے برابر ہے جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی مذکورہ وضاحت کے بعد نیب سےوی آرکرنے والے سرکاری افسران وملازمین بھی دس برس کےلئے نااہل ہوجاتے ہیں سندھ میں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی،اگر اس سلسلے میں جن افسران وملازمین نے وی آرلی ہے ان کی فہرستیں آج بھی نیب سے طلب کی جائیں تو مختلف محکموں کی انتظامیہ نے کرپشن،سیاسی اثرورسوخ اور منظور نظر افسران وملازمین کو معمولی سزائیں دینے کےلئے ان کی کرپشن جو کم دکھائی گئی تھی اسکا بھید بھی کھل جائے گا جبکہ بعض محکموں کے افسران وملازمین وی آرلے چکے ہیں اور ان کواگلے گریڈ میں بھی ترقی دے دی گئی ہے
آج سندھ کے مختلف محکموں کے 150سے زائد ایسے افسران وملازمین ہیں جنکے خلاف نیب ریفرنس دائر ہوچکاہے ان میںمحکمہ محنت کے افسران بھی فہرست کاحصہ ہیں جبکہ عدالتی فیصلے کے مطابق مذکورہ ترامیم کااطلاق صرف ترامیم کے بعد والی انکوائری اور اس سے قبل کی انکوائریوں ومقدمات پر بھی ہوگا یعنی جب سے نیب آرڈی نینس نافذ ہواہے تب سے وہ ترامیم موثر ہونگی اس تمام معاملات کےلئے ایڈوکیٹ جنرل سے رائے طلب کی گئی ہے کیونکہ یہ معاملہ صوبائی محکموں کے سینکڑوں افسران کا ہے جو نیب سے وی آرکر چکے ہیں۔