اسلام آباد: ٹرانسپرنسی لیبرپاکستان(رجسٹرڈ) کے ترجمان نے کہا ہے کہ سیسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہاہے کہ کرپشن بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی انکوائری کمیٹیاں بھی تشکیل دی جاتی ہیں شب وروز ہسپتالوں اور سرکل میں ہونے والی کرپشن کو ڈھونڈنے کی محنت بھی کروائی جاتی ہے اور انکوائری کمیٹیاں کروڑوں روپے کرپشن کی رپورٹس بھی تیارکرکے کمشنر سیسی کے حوالے کرتی ہیں انکوائری افسران کی جوائنٹ میٹنگس بھی کی گئیں نہ جانے وہ کون سی وجوہات آڑے آگئیں کہ سابقہ کمشنر نے مکمل انکوائری رپورٹس کو نہ نیب کے حوالے کیا نہ ہی اینٹی کرپشن کے حوالے کیا۔
ترجمان نے کہا کہ اب ایسی صورتحال میں ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ تمام حقائق سے چیئرمین نیب کوآگاہ کردیاجائے تاکہ تقریباً ایک ارب روپے کی انکوائری کمیٹیوں کی رپورٹ ازخود کمشنر سیسی سے طلب کرلیں کیونکہ ایک ارب روپے کی رقم کم نہیں ہوتی یہ سیدھا مزدوروں کے فنڈز پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جب اس ڈاکہ کی تحقیقات کو الماریوں میں بندکردیاجائے گا تو انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہونگے،سابقہ کمشنرکو چاہیے تھا کہ جب انکوائری رپورٹس مکمل ہوہی گئی تھیں توانہوں نے فوری نوٹس کیوں نہیں لیا،جبکہ سیسی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بھاری مک مکاﺅ کے بعد انکوائری رپورٹس کو ڈمپ کردیا گیا اب وقت آگیاہے کہ پاکستان کے ہرادارے سے کرپشن کاخاتمہ ہو محکمہ محنت سندھ پاکستان کاواحد ادارہ ہے جسکے ذیلی اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن اس طرح کرلی جاتی ہے جیسے خیرات کے چاول بانٹے جاتے ہیں اسی طرح افسرشاہی کرپشن کے مال کوبانٹ رہی ہوتی ہے مگر اب ایسانہیں ہوگا اب ہر کیس چیئرمین نیب اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کو ارسال کیاجائے گاتاکہ ایک ارب روپے کی کرپشن کا علم ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہسیسی کی تاریخ میں پہلی بار تین مختلف انکوائری کمیٹیاں بیک وقت تشکیل دیں گئیں جنہوں نے ولیکاہسپتال،لانڈھی ہسپتال اور سائٹ سرکل کی پانچ سالہ ریکارڈ کی چیکنگ کرکے بدعنوانیوں کاسراغ لگانا تھا تینوں کمیٹیوں میں سرفہرست لانڈھی ہسپتال کی انکوائری کمیٹی نے تقریباً98/99کروڑ کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی جبکہ ولیکاہسپتال اور سائٹ سرکل جو کرپشن کاگڑھ جانے جاتے تھے انکی کوئی رپورٹ منظرعام پر نہ آسکی البتہ ایسے شواہد ضرور منظرعام پر آئے ہیں کہ سائٹ سرکل میں جعلی مزدوروں کے بینک اکاﺅنٹس کھولے گئے ہیں جہاں سے کروڑوں کی ٹرانزکشن ہوتی رہی ہے جب مزدوروں سے حلفی بیانات لئے گئے تو سب نے انکار کردیا کہ یہ شناختی کارڈ ضرور انکے ہیں مگربینک میں اکاﺅنٹس کھولنے پر دستخط ان کے نہیں ہیں اورنہ ہی انکو یہ معلوم ہے کہ اکاﺅنٹس انکے نام سے اوپن کس طرح اور کب کئے گئے ہیں جہاں دوائیوں کے نام سے کروڑوں روپے کی ریل پیل ہوتی رہی جب ایسی صورتحال کا ہرشخص کو علم ہوگا تو وہ کیاوجوہات تھیں کہ سیسی انتظامیہ نے ان انکوائری رپورٹس پر نوٹس نہیں لیا اب یہ کام ٹرانسپرنسی عنقریب ازخود انکوائریوں کی ری انکوائری کروائے گی مگر سیسی افسران سے نہیں وفاقی تحقیقاتی اداروں سے کروائے گی۔