___ ثنا ادریس
گھریلو صنعتوں کا تصور کوئی نیا نہیں ہے، ہمارے ہاں اکثر خواتین خانہ اپنے گھروں میں مختلف کاموں سے جُڑ کر اپنی زندگی کا پہیا چلاتی ہیں۔
کچھ اپنے اِن رپوں کو شوہر کی تنخواہ میں ملا کر گھر بھر کی زندگیوں کو بہتر کرنا چاہتی ہیں
بعض وجوہات کی بنا پر کچھ مرد حضرات بھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر مختلف ہنر آزماتے ہیں اور اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں
کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی صورت حال میں جب اشیائے ضروریہ کے سوا تمام کاروبار معطل کیے جا چکے ہیں، اور لوگوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے میں نچلے اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات بہت تیزی سے معاشی بدحالی کی طرف بڑھ رہی ہیں، امداد دینا، راشن کی تقسیم اور کھانے بٹوانا یقیناً ایک عارضی عمل ہے،
پھر بڑے شہروں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے سفید پوش ہیں، جن کی غیرت دست دراز کرنا گوارا نہیں کر رہی ہے اور وہ اپنے بند گھروں میں بہت بری صورت حال سے دوچار ہیں
ایسے میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ ’گھریلو صنعتوں‘ کی سمت فوری طور پر بھرپور توجہ دی جائے اور مختلف صنعتیں اور فیکٹریاں اپنے کام چھوٹے پیمانے پر کرنے کے لیے (جہاں تک ممکن ہو) ملازمین کو گھروں پر سہولت فراہم کریں،
یہ امر ایک طرف ان سفید پوشوں کی زندگی کا پہیا رواں رکھے گا، تو وہیں مجموعی طور پر ملک کی معاشی بندشوں میں کسی حد تک روانی لانے کا باعث بھی ہوگا
نوٹ: ادارے کا قلمکار کے خیالات اور پیش کردہ مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں